کسی کے سرد لہجے نے
مری پوروں کی چلمن میں
کچھ ایسے آگ بھر دی ہے
مجھے گھر کی
ہر اِک دیوار سے
بازار تک
نوحے سنائی دیتے ہیں
مرے احساس
کے دامن میں شعلے راکھ بن کر
آسماں کی سمت
رقص کرتے جا رہے ہیں
اور میری آنکھ کی نمکینی
مرے اِس جسم کی مٹی کو
ایسے نم زدہ کرنے لگی ہے
نظر آتے ہیں
مجھ کو چار سو اب
بد گمانی کے دیے روشن
اذیت کی فصیلوں پر
یہ میری ذات کی
تکمیل کا ہے بے سُرا نغمہ
مجھے اِس بے سُرے نغمے
پہ جیون کی کہانی میں
جو میری ذات کا کردار ہے
اُس کو نبھانے کے لیے
کچھ دیر
پیروں میں
اذیت سے چٹختے گھنگھرؤں کو
باندھ کر
اک رقص کی محفل سجانی ہے
یہ میرے راکھ جیون میں
کسی کے برف لہجے کی کہانی ہے
مگر
میں چاہتا ہوں اب
کہ گھنگھرو توڑ ڈالوں
اور
اپنے آپ کو
اِس مہرباں دھرتی کے
دامن میں چھپا کر
ہر طرح کے سرد لہجے سے
ہر اِک احساس سے اور
ہر طرح کے بے سُرے نغموں سے
خود کو دور لے جاؤں