افق سے
نمو دار ہونے لگی
جب نئی روشنی
تو
پرند و چرند و نباتات نے
مل کے تسبیح کی
سب ستارے
غیابت کا ملبوس اوڑھے ہوئے
مل کے سجدہ کیے
اور ہواؤں کی مخمور سی سانس سے
اللہ ہو اللہ ہو کے چھڑے زمزمے
ہر کرن اس زمیں پر اترتی ہوئی
نور کا اک کرشمہ دکھاتی رہی
جلوہءِ تابِ خورشید ظاہر ہوا
یہ عرب اور عجم جگمگانے لگے
زندگی اپنے دامن سے لپٹے ہوئے
خاروخس، برگ و گل
ہر روش پر سجاتی رہی
مسکراتی رہی
روشنی
زندگی سے بھرے خواب
آنکھوں کو تقسیم کرنے لگی
ایک نادیدہ طاقت کے وصف و ہنر
دل کے عدسے میں
تجسیم کرنے لگی