Lamhon Ne Khata Ki Thi Sadiyon Ne Saza Payi

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

اس راز کو کیا جانیں ساحل کے تماشائی
ہم ڈوب کے سمجھے ہیں دریا تری گہرائی

جاگ اے مرے ہمسایہ خوابوں کے تسلسل سے
دیوار سے آنگن میں اب دھوپ اتر آئی

چلتے ہوئے بادل کے سائے کے تعاقب میں
یہ تشنہ لبی مجھ کو صحراؤں میں لے آئی

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

کیا سانحہ یاد آیا رزمیؔ کی تباہی کا
کیوں آپ کی نازک سی آنکھوں میں نمی آئی

Share Poetry

Related Poetry

Recent Poetry