صبح گرچہ بڑی سہانی ہے
رات سے دوستی پرانی ہے
ہم تغافل میں تیرے جیتے ہیں
اب تو بس جان آزمانی ہے
جان دینا بھلا کب آساں ہے
کہتے ہیں جان آنی جانی ہے
تیرے پہلو میں سر رکھیں مر جائیں
اس قدر بات کیا بڑھانی ہے
چار دن زندگی ہے اور اس میں
ہائے اک مختصر جوانی ہے
ہم انہیں کیسے بھول سکتے ہیں
یاد آتی ہے یاد آنی ہے
آؤ مشقِ سخن ہی کر لیں کلیمؔ
اور اک رات کیوں گنوانی ہے