اک غزل کی زمیں بناتا ہوں
اور مضامین بھول جاتا ہوں
اب بہت سر نہیں کھپاتا ہوں
بات بنتی ہو تو بناتا ہوں
گیت لکھتا ہوں دھن بناتا ہوں
اور پھر خود کو میں سناتا ہوں
اشک بھرتا ہوں اپنی آنکھوں میں
اور پھر اک دھنک بناتا ہوں
ہاتھ میرے وہی نہیں آتا
ہاتھ جس کی طرف بڑھاتا ہوں
مجھ سے ملنے میں حرج ہی کیا ہے
میں بھلا روز روز آتا ہوں
حافظہ پہلے سا نہیں ہے مرا
ہاں کبھی تجھ کو بھول جاتا ہوں
زندگی سے کٹھن کچھ اور بھی ہے
میں اسی غم میں مرتا جاتا ہوں
کلیم اللہ کلیمؔ