ہمیشہ ایک ہی رخ دیکھتا ہے
کسی کی آئنے کو بددعا ہے
جسے دیکھو وہ الٹا دیکھتا ہے
بھلا بھی آجکل کتنا برا ہے
غزل بے ساختہ ہونے لگی ہے
کہیں تو زخم بھی کام آ رہا ہے
ترے خوابوں کی تعبیریں سلامت
ہمارے رتجگوں کا کیا کیا ہے
ہمارا نام ہے ان کی زباں پر
کوئی پوچھے انہیں کیا ہو گیا ہے
یہ کس کا پیرہن پھر کاغذی ہے
یہ کس کا نقش فریادی ہوا ہے
کنارے لوگ پیاسے مر رہے ہیں
ظفرؔ دریا میں اک سیل بلا ہے