ہستی کا ایک داغ ہوں کچھ دیر اور ہوں
بجھتا ہوا چراغ ہوں کچھ دیر اور ہوں
ساقی، مجھے کہاں کوئی اب منہ لگائے گا
ٹوٹا ہوا ایاغ ہوں کچھ دیر اور ہوں
جاتی ہوئی بہار گلے تو لگا مجھے
صحنِ خزاں میں باغ ہوں کچھ دیر اور ہوں
ہر شخص پاؤں دھرتا گزرتا چلا گیا
مٹتا ہوا سراغ ہوں کچھ دیر اور ہوں
کارجہاں کی خیر ظفرؔ بے ہنر کی خیر
اک ساعت فراغ ہوں کچھ دیر اور ہوں