اسکی نظر اگرچہ نیازانہ بھی نہیں
یکسر وہ میرے حال سے بیگانہ بھی نہیں
اسکا کرم ہے ایک بھرم ہے بنا ہوا
ورنہ مری خرابیاں افسانہ بھی نہیں
ساقی تری شراب کا نشہ کہاں گیا
وہ رند تو نہیں ہیں وہ مے خانہ بھی نہیں
حق ہو بھی کیا ادا کہ تقاضائے عشق میں
یہ جان اس کے حسن کا نذرانہ بھی نہیں
لوگوں سے رائے مانگتا پھرتا ہوں شعر پر
لوگوں کی رائے شعر کا پیمانہ بھی نہیں
"اک شمع جل رہی ہے سررہگزار زیست”
فانوس بھی نہیں کوئی پروانہ بھی نہیں
کیا جانیے نواز ظفرؔ کیوں عجیب ہے
وہ شخص چال ڈھال میں دیوانہ بھی نہیں