دیواروں کو دل کا حال سناتے ہیں
لوگوں میں ہم شاعر جانے جاتے ہیں
تیری باتیں سر آنکھوں پر یار ہے تو
اپنی بات بھی کتنے لوگ نبھاتے ہیں
مجھ پر سایہ کرتے تھے یہ پیڑ کبھی
بڑا ہوا ہوں تو دستار گراتے ہیں
فاقہ مستی میں یہ مستی کیا شے ہے
اس سے پوچھو جس پر فاقے آتے ہیں
کسی کسی سے ملتا ہے وہ عید کے روز
اکثر لوگ تو بس تہوار مناتے ہیں
دیوانے بھی جنگل میں جا بستے ہیں
دیوانے بھی کب تک پتھر کھاتے ہیں
ایک فقیر نواز ظفرؔ ہے بستی میں
لوگ قبیلوں والے ہیں اتراتے ہیں