کیا خاکی کیا نوری کی ہے
ساری بات حضوری کی ہے
تم کیا جانو عاشقی کیا ہے
تم نے کبھی مزدوری کی ہے
جانے اس کے ہاتھ میں ہے کیا
خوشبو تو کستوری کی ہے
مجھ میں ایک کمی رہتی تھی
تم نے آکر پوری کی ہے
جیسے خاک اڑی ہے میری
یہ وحشت مجبوری کی ہے
دنیا سے تو لڑ سکتا ہوں
تم سے بحث ادھوری کی ہے
نام نواز ظفرؔ ہے شائد
لاش کسی منصوری کی ہے