لگائی آگ لوگوں نے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
یہ شعلے کس طرح بھڑکے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
ہمارے تلخ لہجے سے تمہیں بھی بدگمانی ہے
منافق ریشمی لہجے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
تم اپنی بے نیازی میں ہم اپنی بے دماغی میں
یہ چہروں پر کئی چہرے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
یونہی اوروں سے بدظن تھے ہمارے اپنے دشمن تھے
یہ خونیں خون کے رشتے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
ہماری روسیاہی کے تمہاری کج کلاہی کے
یہ سارے عارضی نقشے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
محبت اس زمانے میں نرا گھاٹے کا سودا ہے
سیانے ٹھیک کہتے تھے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
یہاں جذبات کی قیمت نہیں جان ظفرؔ کچھ بھی
مگر جذبات کے مارے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے