جسم پر اوڑھتے ہو مٹی کو
پاؤں میں رولتے ہو مٹی کو
رات دن کھیلتے ہو پانی سے
رات دن سوچتے ہو مٹی کو
وہ خزانہ تو لے گیا ہے کوئی
بے سبب کھودتے ہو مٹی کو
اتنے انجان بن رہے ہو کیوں
غور سے دیکھتے ہو مٹی کو
تم بھی مٹی کے دیوتا ہو صہیبؔ
کس لیے پوجتے ہو مٹی کو