سر پر کسی غریب کے ناچار گر پڑے
ممکن ہے میرے صبر کی دیوار گر پڑے
کیا خوب سرخ رو ہوئے ہم کار عشق میں
دو چار کام آ گئے دو چار گر پڑے
اس بار جب اجل سے مرا سامنا ہوا
کشتی سے خواب ہاتھ سے پتوار گر پڑے
روشن کوئی چراغ نہیں نخل طور پر
سجدے میں کس کو دیکھ کے اشجار گر پڑے
کرتی ہے فرش خاک کو دیوار آئنہ
آنکھوں سے جب یہ دولت بیدار گر پڑے
اس پار دیکھ کر مجھے اک گل بدن کے ساتھ
جتنے مرے گلاب تھے اس پار گر پڑے
ساجدؔ اگر عزیز تھی اپنی انا انہیں
کیا سوچ کر گلی میں مرے یار گر پڑے