دیپ دل کا جلا کے بیٹھے ہیں
اک تمـاشـا لگا کے بیٹھے ہیں
راس آئـی نہ روشنی ہـم کو
سانحہ اک اُٹھا کے بیٹھے ہیں
آئینے منہ چھـپانے لگتے ہیں
اتنے چہرے لگا کے بیٹھے ہیں
آنکھ بھی تو کہیں سے لا ایسی
خواب تو دیکھ آ کے بیٹھے ہیں
کون آیـا بھـــلا وہاں سے پھر
آپ جس دیس جا کے بیٹھے ہیں
دریا دل اتنے ہیں کہ قطروں کو
ہم سمنـدر بنا کے بیٹھے ہیں
اپنے حصے کی ساری حیرت ہم
آئینوں سے چُرا کے بیٹھے ہیں
منہ لـگانے کے بھی نہیں قابـل
دل سے جن کو لگا کے بیٹھے ہیں
اپنے ملبوں تلے دبے ہیں ہم
اپنی میّت اٹھا کے بیٹھے ہیں