اس پرستاں کی وہ پری ہی نہیں
آنکھ جس شوخ پر جمی ہی نہیں
اے مِرے وقت کے خدا ترے پاس
میری خاطر کوئی گھڑی ہی نہیں
اَبر چھن چھن کے برسے گا اسی پر
جو شناسائے تشنگی ہی نہیں
چڑھتی آبادی پر ہیں ششدر سب
شہر سارے میں آدمی ہی نہیں
اوڑھ کے بیٹھا ہوں وہاں بھی سکوت
جس جگہ رسمِ خامشی ہی نہیں
تجھ میں کب آئی زندگانی سی خُو
میری ہو کر بھی تُو مِری ہی نہیں
ہے نظر جسکی شرق و غرب پہ یار
مجھ کو وہ آنکھ دیکھتی ہی نہیں
اک صدی کھود کر ہُوا معلوم
یہ صدی تو مِری صدی ہی نہیں