یہ نشانی بھی بدلتے ہوئے منظر کی ہے
خامی جس خوبی سے یاروں نے اجاگر کی ہے
مثلِ مجنوں مجھے حاجت ہی نہیں صحرا کی
رائیگانی مرے حجرے میں جہاں بھر کی ہے
اِس لئے بھی یہاں کم کم ہیں یہ آئینہ بدن
آنکھ ہر ایک ہی اس شہر میں پتھر کی ہے
ساتھ مرہم کے ملے گا تجھے سایہ بھی یہاں
میرے دشمن ابھی دیوار مرے گھر کی ہے
مت بُرا جان کہ اس شہرِ گراں گوش میں اب
بات اُڑتی ہے وہی، جو یہاں بے پر کی ہے
جی میں آتا نہیں تو دیکھ نہیں مان مری
کب کہا میں نے، مِری بات پیمبر کی ہے
جامِ جم میں بھی عزیرؔ ایسی حلاوت ہے کہاں
جو حلاوت مرے ٹوٹے ہوئے ساغر کی ہے