سب میسر ہے پھر بھی شاد نہیں
مجھ کو ہنسنا بھی میرا یاد نہیں
بس کیے جا رہے ہیں کارِ سخن
ہم کو ہرگز کوئی مفاد نہیں
پاس میرے بھی خوں پسینہ ہے
میرے پیچھے بھی جائداد نہیں!
کون ساتھی ہو میری وحشت کا
مجھ کو اپنا بھی اعتماد نہیں
ایک سے ایک ہے گلاب یہاں
جو نہیں تو گلِ مراد نہیں
عیب ہوں گے عزیرؔ لاکھ مگر
قول اور فعل میں تضاد نہیں