جھڑا ہے یوں بھی مقدر مرے گریباں سے
کہ خوف کھاتا تھا مل کر مرے گریباں سے
اسی وجہ سے نہ دامن کو چاک کر پایا
الجھ پڑا تھا رفو گر مرے گریباں سے
لپٹ رہی تھی گلے سے وہ جل پری میرے
چھلک رہا تھا سمندر مرے گریباں سے
ضرور ریگِ تپاں ہمسفر رہی ہوگی
اسے لگا ہے یہ اکثر مرے گریباں سے
یہ کس نے اسمِ تعجب بنا دیا مجھ کو
یہ کس نے باندھ دیا سر مرے گریباں سے
درونِ خواب کئی روزنوں کے ہوتے ہوئے
ترا خیال گرا پر مرے گریباں سے
جسے قبائے دہر صورتِ اماں تھی کبھی
اسی کو لگنے لگا ڈر مرے گریباں سے