خوف کا روپ معانی سے نمودار ہوا
ایسا کردار کہانی سے نمودار ہوا
مجھ کو مارا تھا مقدر نے بیابانوں میں
جسم حیرت ہے کہ پانی سے نمودار ہوا
بادشاہوں کا بھرم تاج سے گرتے دیکھا
پیار نامہ کسی رانی سے نمودار ہوا
پہلے وہ ضبط کے دلدل میں کہیں ڈوب گیا
بعد میں اشک فشانی سے نمودار ہوا
پھر کئی دیپ جلے مرقدِ ماضی کے قریں
پھر دھواں نقل مکانی سے نمودار ہوا
بات بے بات انوکھی سی تمنا کا حصول
یعنی بچپن بھی جوانی سے نمودار ہوا
جھرجھری دیکھنے والی تھی سرِ کرب و بلا
دستِ عباس جو پانی سے نمودار ہوا