کیا ہوا نیند کی پناہوں میں
دھول اڑتی ہے خواب گاہوں میں
چھوڑ دینا کسی کو گھبرا کر
ایسا ہوتا نہیں ہے شاہوں میں
اب تو کارِ ثواب لازم ہے
لطف آیا نہیں گناہوں میں
کس لیے منہمک ہوئے اتنے
راگ داری نہیں ہے آہوں میں
شب کی ظلمت اسیر کرتے ہوئے
چھپ گیا دیپ خانقاہوں میں
دشت در دشت ایک سایہ ہے
اور اک جسم ہے نگاہوں میں
دور جتنا بھی ہو درِ بخشش
چلتے رہنا اسی کی راہوں میں