سرما تھا مگر پھر بھی وہ دن کتنے بڑے تھے
اس چاند سے جب پہلے پہل نین لڑے تھے
رستے بڑے دشوار تھے اور کوس کڑے تھے
لیکن تری آواز پہ ہم دوڑ پڑے تھے
بہتا تھا مرے پاؤں تلے ریت کا دریا
اور دھوپ کے نیزے مری نس نس میں گڑے تھے
پیڑوں پہ کبھی ہم نے بھی پتھراؤ کیا تھا
شاخوں سے مگر سوکھے ہوئے پات جھڑے تھے
اے رامؔ وہ کس طرح لگے پار مسافر
جن کے سر و سامان یہ مٹی کے گھڑے تھے