یہ دل شمالی علاقوں کی اور بڑھنے لگا
تمہارے ہجر کا پربت بھی چھوٹا پڑنے لگا
تمہاری آنکھوں سے وسعت کشید ہونے لگی
یہ ایک دریا تو اب کوزے سے نکلنے لگا
جو پہلے کہہ رہا تھا راستہ بدلنا نہیں
وہ پہلے موڑ پہ ہی راستہ بدلنے لگا
کبھی گناہ مرے عشق کی نمو بھی رہے
میں اب گناہوں سے کچھ اور بھی بگڑنے لگا
کوئی بھی نقطہ مرے فہم تک نہیں پہنچا
جو من میں آتا گیا شعر میں اگلنے لگا
گیا وہ شوق کہ منظر پہ میں رہوں ہر سو
میں اپنی شعری روایت کا ڈھب بدلنے گا